سانحۂ پلاسی

جعفر از بنگال و صادق از دکن

ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن



۲۳ جون ۱۷۵۷ء ہماری تاریخ کا عہدساز دن ہے جب برصغیر ہند و پاک کے مسلمانوں کی غلامی کے دور کا آغاز شروع ہوا۔ یہ تاریخ جنگِ پلاسی کی تاریخ ہے جو صرف ۹ گھنٹے جاری رہی اور اس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں کی غلامی دو صدیوں تک جاری رہی۔ اس جنگ نے میر جعفر نام کے ایک کردار کو برِصغیر کی تاریخ، ادب اور شاعری میں متعارف کرایا جو غداری اور وطن فروشی کی علامت ہے۔

پلاسی ایک گاؤں کا نام ہے جو اُس وقت کےمتحدہ بنگال کے دارلحکومت مرشد آباد سے ۳۰ میل اور مغربی بنگال کے موجودہ دارلحکومت کولکتہ سے ۱۵۰ میل کے فاصلے پر ایک دریا کے کنارے واقع ہے۔

۲۳ جون ۱۷۵۷ کو میدانِ جنگ کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ شمال میں بنگال، بہار اور اڑیسہ کے نواب ناظم کی فوج خیمہ زن تھی۔ ۲۰ سالہ نوجوان نواب کا نام مرزا محمد اور لقب سراج الدولہ تھا۔ تاریخ میں وہ اپنے لقب سے مشہور ہے۔ سراج الدولہ کی فوج تقریباً پچاس ہزار سپاہ پر مشتمل تھی جس میں ۳۵ ہزار پیادہ اور ۱۵ ہزار گھڑسوار شامل تھے۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق ریاست کا سربراہ نواب سراج الدولہ فوج کا کمانڈر انچیف تھا۔ ڈپٹی کمانڈر انچیف میر مدن تھا۔ فوج کے مختلف ڈویژن مختلف جنرلوں کی کمان میں تھے جن میں سے ایک جنرل میر جعفر تھا جس کا پورا نام سید محمد جعفر علی تھا۔
جنوب میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک افسر رابرٹ کلائیو کی مختصر سی فوج تھی جس کا ۷۰ فیصد حصہ ہندوستانی سپاہ پر مشتمل تھا۔ انگریزی فوج صرف ۲۹۷۱ نفوس پر مشتمل تھی جس میں ۶۰۰ یورپین سپاہی، ۲۱۰۰ ہندوستانی پیادہ فوج، ۱۰۰ مخلوط النسل یوریشیائی سپاہی ۱۷۱ توپچی شامل تھے۔ اس طرح سراج الدولہ کی کی فوج کلائیو کے مقابلے میں سترہ گنا بڑی تھی۔ کلائیو کے پاس ۱۲ جبکہ سراج الدولہ کے پاس ۵۳ توپیں تھیں۔ اس طرح کلائیو کے مقابلے میں نواب کا توپ خانہ بھی چوگنا تھا جو فرانسیسی فوجی افسران کی تحویل میں تھا۔

جنگ پلاسی شروع ہونے سے کچھ روز قبل میر مدن نے نواب سراج الدولہ کو مشورہ دیا کہ انگریزوں سے نمٹنے سے پہلے وہ میر جعفر اور اس جیسے دوسرے سازشیوں اور غداروں کو ٹھکانے لگا دے لیکن نواب سراج الدولہ نوجوان اور ناتجربہ کار تھا۔ اس نے آستین کے سانپوں کو پہچاننے میں غلطی کی جس کا خمیازہ اسے بعد میں بھگتنا پڑا۔ چرب زبان میر جعفر نے نواب کو قرآن پر ہاتھ رکھ کر اپنی وفاداری کا یقین دلایا اور اسے مطمئن کر دیا۔

جنگ شروع ہوئے تین گھنٹے گزر چکے تھے اور کلائیو نے پسپا ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ اس وقت اس نے دیکھا کہ نواب سراج الدولہ کی فوج کا ایک حصہ اپنی فوج سے الگ ہو کر اس کی جانب آ رہا ہے۔ یہ میر جعفر کی ڈویژن تھی۔

جون کے آخر میں بنگال مون سون گھٹاؤں کی زد میں ہوتا ہے۔ اس دن بھی آسمان پر بادل چھائے تھے اور گیارہ بجے آسمان اچانک پھٹ پڑا۔ تیز بارش میں نواب سراج الدولہ کی گرجتی ۵۳ توپیں خاموش ہو گئیں کیونکہ بارود اور توپوں کو متوقع بارش سے بچانے کیلیے کوئی انتظام نہ کیا گیا تھا۔ اس بے تدبیری اور عدم توجہی نے جنگ کا اور اگلے دو سو سال کیلیے ہندوستان کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا۔ بارود بھیگنے اور توپوں کے پانی میں نہا کر عارضی طور پر خاموش ہو جانے کی وجہ سے نواب سراج الدولہ کے لشکر میں سراسیمگی پھیل گئی۔ یہ دیکھ کر بہادر اور وفادار ڈپٹی کمانڈر انچیف فوج کا حوصلہ بڑھانے کیلیے خود میدانِ جنگ میں کود پڑا اور وطن پر نثار ہو گیا۔

دوسری طرف میر جعفر قرآن پر دیئے گئے حلف کو بھول گیا۔ اُس نے نواب سراج الدولہ کو پسپائی کا مشورہ دیا جو کہ نواب نے فوراً قبول کرلیا۔  بنگالی فوج کا بارود بھیگ ضرور گیا تھا مگر ناکارہ نہیں ہوا تھا۔ اسے خشک کرنے کے بعد دوبارہ استعمال میں لایا جا سکتا تھا اس کے علاوہ ان کو فیصلہ کن عددی برتری بھی حاصل تھی۔ لیکن میر جعفر بِک چکا تھا۔ اس نے کلائیو کو پیغام بھیجا کہ میدان صاف ہے۔ یہ غیر متوقع خوش خبری ملتے ہی انگریزی فوج جو کہ پسپائی کا سوچ رہی تھی، اپنی توپوں کے ساتھ نواب سراج الدولہ کی فوج پر چڑھ دوڑی اور یوں سہ پہر تقریباً پانچ بجے جنگ کا فیصلہ ہو گیا۔

جنگِ پلاسی کے بعد نواب سراج الدولہ کی انتہائی بھیانک طریقے سے مسخ شدہ لاش کی مرشد آباد میں نمائش کرائی گئی اور ۶ دن بعد ۲۹ جون کو میر جعفر ’’بنگال، بہار اور اڑیسہ‘‘ کے ’’نواب ناظم‘‘ کی حیثیت سے تختِ سیاہ پر بیٹھا۔ اس طرح اس غداری کی وجہ سے ہندوستان کی تاریخ کے ایک سیاہ باب کا آغاز ہو گیا۔

Posted on اگست 4, 2009, in تاریخ and tagged , , , . Bookmark the permalink. 9 تبصرے.

  1. آپ ان کو چھوڑ کر اگر آج کے جعفر اور صادق کےبارے لکھتے تو اور بھی اچھا ہوتا

    • شکریہ جناب کامی صاحب تبصرہ کیلیے۔ آج کے میر جعفر اور میر صادق کے بارے میں سب لوگ جانتے ہین کہ ان کے کیا کرتوت ہیں۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی کہ پاکستان کا پہلا صدر سکندر مرزا ہی میر جعفر کا پڑپوتا تھا، اس کے بعد کے حالات سے آپ آگاہ ہی ہیں۔

  2. سعد بھائی
    السلام علیکم آپ بلاگ پر تشریف لائے اس کے لئے احسان مند ہوں۔ آپ کا بلاگ مجھے بہت خوب لگا کہ اس میں کافی متنوع مواد موجود ہے۔ زبردست ماشاء اللہ

  3. بہت ہی زبردست پوسٹ ہے سعد

    بہت عرصہ کے بعد اتنی عمدہ تاریخی پوسٹ پڑھنے کو ملی ہے۔ آپ کا انتہائی مشکور ہوں

  4. بہت عمدہ تحریر ہے۔ تاریخی حوالہ جات بہت ضروری ہیں تاکہ ہم تاریخ کے آئینے میں اپنے حال کو دیکھ سکیں اور مستقبل کو بہتر بنا سکیں۔
    جنگ پلاسی تاریخ ہندوستان کا ایک المناک باب ہے۔ اس میں ہمارے سیکھنے کے لیے یہ سبق ہے کہ اگر تنظیم اور منصوبہ بندی سے کوئی کام کیا جائے تو اس کے نتائج بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ کہاں تین ہزار کا فرنگی لشکر اور کہاں ایک لاکھ مسلمان؟ غداری تو صرف ایک سبب تھا جنگ پلاسی میں شکست تھا۔ اصل اسباب تو یہ تھے کہ مسلمان بے عملی اور بے تدبیری کے باعث انگریزوں سے برابر کی سطح پر لڑائی لڑ ہی نہ سکتے تھے۔ سراج الدولہ کی یہ کمزوری تھی کہ اس نے میر جعفر جیسے سازشیوں اور خوشامدیوں کو اپنے گرد اکٹھا کیا اور یہ اس زمانے کا کلچر بن چکا تھا۔ دربار خوشامدیوں سے بھرے رہتے اور بہت کم ہی کوئی قابل شخص وزیر بنتا۔ ہندوستان کی تاریخ میں تو محض چند ہی ایسی شخصیات ہیں جو اپنی قابلیت کی بناء پر وزیر بنیں۔ ورنہ تو یہ ایک سے بڑھ کر ایک چمچہ ملا ہے۔
    اللہ ہمیں تاریخ سے کچھ سمجھنے کی توفیق دے۔

    • بالکل بجا فرمایا آپ نے۔ ہم بہت جلد اپنی تاریخ بھول جاتے ہیں یا اس سے سبق نہیں سیکھتے اور اس کے نتیجے میں بار بار نقصان اٹھاتے ہیں۔

  5. میر جعفر صادق کی غداری پڑھ کر ششدرہ رہ گیا کہ انکی وجہ سے بر صغیر اور خاص کر مسلمانوں کو بھی غلامی کا طوق پہننا پڑا ،اللہ پاک ،آنے والی نسلوں ایسے غداروں سے محفوظ رکھے ،

تبصرہ کیجیے