ہمدردی
بھولا چھٹی کے وقت دفتر سے گھر جانے کیلیے نکلا۔ تھوڑے ہی فاصلے پر اسے ایک آدمی نے رکنے کا اشارہ کیا اور لفٹ مانگی۔ آدمی حلیے سے پڑھا لکھا اور معزز معلوم ہوتا تھا لہٰذا اس نے اسے اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھا لیا۔
"کیوں نہ میں آپ کو ایک سبق آموز قصہ سناؤں؟ وقت اچھا کٹ جائے گا”۔ معزز آدمی نے رستے میں پوچھا
"ضرور”۔ بھولا خوش اخلاقی سے بولا
"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شجر کی ٹہنی پر ایک بلبل اداس بیٹھا تھا۔ وہ سارا دن کھاتا پیتا اور گانا گاتا رہا تھا اور اسے پتا ہی نہ چلا کہ کب شام ہوئی اور کب اندھیرا چھا گیا۔ بلبل اسی پریشانی میں تھا کہ اب آشیاں تک کیسے پہنچے ، ایک جگنو اس کی مدد کو پہنچا۔ جگنو نے روشنی کر کے بلبل کو راستہ دکھایا اور اسے منزل تک پہنچا دیا”۔ معزز آدمی نے کہانی سنائی اور اتنے میں اس کا سٹاپ آگیا اور وہ موٹر سائیکل سے اتر گیا۔
"کہانی سنانے کا شکریہ مگر یہ میں بچپن میں ہی سن چکا ہوں”۔ بھولے نے کہا
"دراصل آپ نے بچپن میں جو کہانی سنی وہ ادھوری تھی۔ بقیہ کہانی یہ ہے کہ جیسے ہی جگنو بلبل کو چھوڑ کر واپس جانے کیلیے مڑا، بلبل جسے گھر پہنچ کر دوبارہ بھوک لگ چکی تھی، نے چونچ بڑھائی اور جگنو کو ہڑپ گیا”۔ معزز آدمی نے بتایا
"اوہ… مگر اس کہانی سے اخلاقی سبق کیا ملتا ہے؟” بھولے نے پوچھا!
"یہ تو آپ کو گھر پہنچ کر ہی معلوم ہو گا”۔ معزز آدمی نے بھولے کو جواب دیا اور اس کا شکریہ ادا کر کے چل دیا۔
جب وہ سوچ میں ڈوبا گھر پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی جیب میں بٹوا نہیں ہے۔ اب اسے کہانی کا اخلاقی سبق اچھی طرح سمجھ آ گیا اور ساتھ ہی ابا جی کا قول بھی کہ بیٹا اس زمانے میں سبق بھی مفت میں نہیں ملتا!
Posted on فروری 8, 2013, in متفرقات and tagged کہانی, بلبل, جگنو, سبق. Bookmark the permalink. 21 تبصرے.
ہا ہا بے چارہ بھولا مارا گیا ۔ چلو آئندہ محتاط رہے گا
اور گھر پہنچنے سے پہلے سکوٹر کو ہرگز بریک نہ لگائے گا
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھولے او بھولے۔۔
نیکی کر دریا میں ڈال
ذرا گہرائی میں
بہت مزا آیا بھولے کے بارے میں پڑھ کر۔ مجھ سے جب کوئی لفٹ مانگے تو دل بہت کرتا ہے کہ مدد کی جائے مگر پھر خیال آتا ہے کہ بجائے سارا وقت اپنی جییب/پرس/موبایل پر دھیان رکھا جائے بے دید بن کر انکار ہی کر دیا جائے۔ نیکی کر کے لینے کے دینے نا پڑ جائیں۔ کیا وقت آ گیا ہے کہ اب نیکی بھی نہیں کی جا سکتی۔
جی ہاں جناب اب نیکی کرنے سے پہلے ہزار بار خیال آتا ہے کہ نیکی کہیں گلے ہی نا پڑ جائے
واقعی اب سبق بھی مفت نہیں ملتا
وہ پنجابی میں کہتے ہیں نا کہ مت مُل نال ملدی اے
اچھا تو اب پاکٹ ماری کا کام معزز لوگ کرتے ہیں..
جناب معزز لوگ تو ملک کو لوٹ کھاتے ہیں پاکٹ ماری تو بہت چھوٹا کام ہے
زندگی کا اتنا بڑا سبق صرف ایک لفٹ دے کر، اور ایک بٹوا گنوا کر مل گیا،
سودا مہنگا نہیں بھولیا
بے شک
اخیر۔۔۔ بھولا بھولپن میں ہی مار کھا گیا۔ ویسے یہ کہانی کتابوں میں بھی اپڈیٹی جانی چاہیئے اب۔
ویسے جتنا بھولا یہ تھا، شکر کریں بلبل بس بٹوے تک ہی رہا!۔
جی ہاں ورنہ سکوٹر کے علاوہ جان بھی جا سکتی تھی
شکر ہے بھولے کی جان نہیں لی اس نے۔اور ہاں ساتھ ہی موٹر سائیکل بھی ،بھولے کو شکریہ کے طور پر ایک عدد بکرا ذبح کرنا چاہئے ،اگر کالا ہو تو اور بھی اچھا ہے ہمارئے صدر صاحب بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔
کالے بکرے کا صدقہ کئی بلاؤں کو ٹالتا ہے سوائے کتے کے
بھولا واقعی بھولا نکلا 🙂 چیک تو کر لیتا پرس میں پیسے تھے یا گیس اور بجلی کے غیر ادا شدہ بل تھے
پچھلا تبصرہ لگتا ہے ہم نے بھنگ پی کر کیا تھا۔ :)کہنا یہ چاہتے تھے کہ بھولا سیانا نکلا کہ معزز آدمی پرس چیک تو کر لیتا کہ پیسے تھے یا غیر ادا شدہ بل
kia bat hay samra aap i kahani ki
جان بچی سو لاکھوں پائے
لوٹ کے بدھو گھر کو آئے
لوٹ کے بھولا گھر کو آئے